EN हिंदी
اس بستی کے اک کوچے میں | شیح شیری
is basti ke ek kuche mein

نظم

اس بستی کے اک کوچے میں

ابن انشا

;

اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا
اک نار پہ جان کو ہار گیا مشہور ہے اس کا افسانا

اس نار میں ایسا روپ نہ تھا جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے مہتاب رخے گلنار لبے

کچھ بات تھی اس کی باتوں میں کچھ بھید تھے اس کی چتون میں
وہی بھید کہ جوت جگاتے ہیں کسی چاہنے والے کے من میں

اسے اپنا بنانے کی دھن میں ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا

نا چنچل کھیل جوانی کے نا پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا یا فون پہ ان کی باتیں تھیں

اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے بے حاصل سا بے حاصل تھا
اک زور بپھرتے ساگر میں نا کشتی تھی نا ساحل تھا

جو بات تھی ان کے جی میں تھی جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا

اک روز مگر برکھا رت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے یہ دیکھنے والوں نے دیکھا

مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیئے یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی جب سیلانی گھر لوٹ گئے

کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا

ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت پیمان بہت
وہ جن پہ بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں نقصان بہت

وہ نار یہ کہہ کر دور ہوئی 'مجبوری ساجن مجبوری'
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟

اس روز ہمیں معلوم ہوا اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا

گو آگ سے چھاتی جلتی تھی گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا چپ رہتا تھا غم سہتا تھا

نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا سب اپنوں کو بیگانوں کو

'کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا'
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا

اب آگے کا تحقیق نہیں گو سننے کو ہم سنتے تھے
اس نار کی جو جو باتیں تھیں اس نار کے جو جو قصے تھے

اک شام جو اس کو بلوایا کچھ سمجھایا بیچارے نے
اس رات یہ قصہ پاک کیا کچھ کھا ہی لیا دکھیارے نے

کیا بات ہوئی کس طور ہوئی اخبار سے لوگوں نے جانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشا نام کا دیوانا

ہر بات کی کھوج تو ٹھیک نہیں تم ہم کو کہانی کہنے دو
اس نار کا نام مقام ہے کیا اس بات پہ پردا رہنے دو

ہم سے بھی تو سودا ممکن ہے تم سے بھی جفا ہو سکتی ہے
یہ اپنا بیاں ہو سکتا ہے یہ اپنی کتھا ہو ہو سکتی ہے

وہ نار بھی آخر پچھتائی کس کام کا ایسا پچھتانا؟
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوانا