EN हिंदी
اقبال کا شعر | شیح شیری
iqbaal ka sher

نظم

اقبال کا شعر

میکش اکبرآبادی

;

ایمان کی تفسیر قلندر کا ترانہ
سمجھے تو پلٹ آئے بلندی پہ زمانہ

بے باک نگاہوں کا فلک بوس اشارہ
سنگین چٹانوں سے گزرتا ہوا دھارا

بے تابئ فطرت کی سکوں بخش کہانی
شعلوں سے بنائی ہوئی شبنم کی روانی

اشکوں میں نہائی ہوئی اک موج تبسم
ملاح کا گرداب میں جس طرح ترنم

الہام میں تکمیل حقیقت کی ادائیں
شاہین کی پرواز مجاہد کی نوائیں

سوئی ہوئی قسمت کو جگاتا ہوا نغمہ
ہر سانس کو ہنگامہ بناتا ہوا نغمہ

پت جھڑ کی طرف دیکھ کے ہنستا ہوا بادل
سوکھے ہوئے کھیتوں پہ برستا ہوا بادل

اک برق سر طور تکلم کے سہارے
اک جلوۂ مستور ترنم کے سہارے

اک شمع رہ شوق میں منزل کی نشانی
اک پیکر لفظی کی نوا خیز جوانی

اک روح جو انسان کو انسان بنا دے
اک درد جو جذبات کو ایمان بنا دے

اقبالؔ کا ہر شعر ہے مے خانۂ ہستی
ہر رند کو دیتا ہے جو پیمانۂ ہستی