EN हिंदी
اقبال | شیح شیری
iqbaal

نظم

اقبال

فیض احمد فیض

;

آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزلخواں گزر گیا

سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیا

تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا

اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدانما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں

چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں

پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس کے لے سے سیکڑوں لذت شناس ہیں

اس گیت کے تمام محاسن ہیں لا زوال
اس کا وفور اس کا خروش اس کا سوز و ساز

یہ گیت مثل شعلۂ جوالہ تند و تیز
اس کی لپک سے باد فنا کا جگر گداز

جیسے چراغ وحشت صرصر سے بے خطر
یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر