رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کیے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دل مضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی مرے غم خانے میں شہنائی سی
پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آ ہی گئے
سجدے مسرور کہ معبود کو ہم پا ہی گئے
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا! تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی
میرے محبوب مری نیند اڑانے والے
میرے مسجود مری روح پہ چھانے والے
آ بھی جا، تاکہ مرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا، تاکہ ترے قدموں پہ مری جاں نکلے
نظم
انتظار
مخدومؔ محی الدین