کبھی جمود کبھی صرف انتشار سا ہے
جہاں کو اپنی تباہی کا انتظار سا ہے
منو کی مچھلی نہ کشتئ نوح اور یہ فضا
کہ قطرے قطرے میں طوفان بے قرار سا ہے
میں کس کو اپنے گریباں کا چاک دکھلاؤں
کہ آج دامن یزداں بھی تار تار سا ہے
سجا سنوار کے جس کو ہزار ناز کیے
اسی پہ خالق کونین شرمسار سا ہے
تمام جسم ہے بے دار فکر خوابیدہ
دماغ پچھلے زمانے کی یادگار سا ہے
سب اپنے پاؤں پہ رکھ رکھ کے پاؤں چلتے ہیں
خود اپنے دوش پہ ہر آدمی سوار سا ہے
جسے پکاریے ملتا ہے اک کھنڈر سے جواب
جسے بھی دیکھیے ماضی کا اشتہار سا ہے
ہوئی تو کیسے بیاباں میں آ کے شام ہوئی
کہ جو مزار یہاں ہے مرا مزار سا ہے
کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے
اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے

نظم
انتشار
کیفی اعظمی