EN हिंदी
انتساب | شیح شیری
intisab

نظم

انتساب

احمد فراز

;

ہماری چاہتوں کی بزدلی تھی
ورنہ کیا ہوتا

اگر یہ شوق کے مضموں
وفا کے عہد نامے

اور دلوں کے مرثیے
اک دوسرے کے نام کر دیتے

زیادہ سے زیادہ
چاہتیں بد نام ہو جاتیں

ہماری دوستی کی داستانیں عام ہو جاتیں
تو کیا ہوتا

یہ ہم جو زیست کے ہر عشق میں سچائیاں سوچیں
یہ ہم جن کا اثاثہ تشنگی، تنہائیاں سوچیں

یہ تحریریں
ہماری آرزو مندی کی تحریریں

بہم پیوستگی اور خواب پیوندی کی تحریریں
فراق و وصل و محرومی و خورسندی کی تحریریں

ہم ان پر منفعل کیوں ہوں
یہ تحریریں

اگر اک دوسرے کے نام ہو جائیں
تو کیا اس سے ہمارے فن کے رسیا

شعر کے مداح
ہم پر تہمتیں دھرتے

ہماری ہمدمی پر طنز کرتے
اور یہ باتیں

اور یہ افواہیں
کسی پیلی نگارش میں

ہمیشہ کے لئے مرقوم ہو جاتیں
ہماری ہستیاں مذموم ہو جاتیں

نہیں ایسا نہ ہوتا
اور اگر بالفرض ہوتا بھی

تو پھر ہم کیا
سبک ساران شہر حرف کی چالوں سے ڈرتے ہیں

سگان کوچۂ شہرت کے غوغا
کالے بازاروں کے دلالوں سے ڈرتے ہیں

ہمارے حرف جذبوں کی طرح
سچے ہیں، پاکیزہ ہیں، زندہ ہیں

بلا سے ہم اگر مصلوب ہو جاتے
یہ سودا کیا برا تھا

گر ہماری قبر کے کتبے
تمہارے اور ہمارے نام سے منسوب ہو جاتے!