EN हिंदी
انتباہ | شیح شیری
intibah

نظم

انتباہ

یوسف تقی

;

اے میرے بیٹو!
میں سوچتی ہوں

کہ قدموں سے
میں اپنے تن کے حیات آگیں لہو کے چشمے

بہا رہی ہوں
تمہارے سارے

نزار جسموں نحیف ذہنوں کی مردنی کو
مٹا رہی ہوں

ازل سے اپنے ضعیف چہرے کی آڑی ترچھی
سی جھریوں کی لکیر میں تو

اداس آنکھوں ملول پلکوں
سے ٹپکے قطرے

ملا رہی ہوں
حسین خوابوں کے بوڑھے برگد

کے زرد پتے بھی چن رہی ہوں
وہ خواب جن کے

چمکتے جگنو
اسیر کرنے کو میری بانہوں کے ساحلوں پر

سفید چہرے سیاہ قالب
غنیم اترے

حسین خوابوں کے جگنوؤں کو
اسیر کر کے

خود اپنی ماؤں کی سرد آنکھوں کو زندگی دی
مرے دفینے مرے خزینے

سے اپنی کشتی
کی گود بھر بھر کے لے گئے اور

میرے بیٹوں کے ذہن و دل میں
تفاوتوں اور عداوتوں کی

کریہہ فصلوں کے بیج بوئے
وہ فصلیں جن کو

عزیز بیٹوں نے اپنے اپنے لہو سے سینچا
کہ جن کے سینے کی پاک مٹی

کو گرم تازہ لہو سے
ہر دم

غلیظ رکھا
اور میرے بیٹو!

میں سوچتی ہوں
اسی طرح گر

تفاوتوں اور عداوتوں کے
یہ بیچ بوتے

رہے تو اک دن
یہ دیکھنا تم

نہ تم رہوگے نہ میں رہوں گی
فقط ہماری کتھا رہے گی!