میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو
مجھے اک کٹہرا فراہم کر دیا گیا
میں گواہ ہوں
لیکن چشم دید نہیں
مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤ
جو بھی کہوں گی سچ کہوں گی
سچ کے سوا کچھ بھی نہیں
میں نے قسم کھائی
اور گواہی دی
میری ہلاکت چشم دید نہ تھی
سو قاتل آج بھی گھومتا ہے آزادانہ
مگر میں قید ہوں
جھوٹی گواہی کے الزام میں
اب بھی
نظم
انصاف
شہناز نبی