EN हिंदी
انقلابی عورت | شیح شیری
inqilabi aurat

نظم

انقلابی عورت

فہمیدہ ریاض

;

رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال
اک دن جل میں چھایا دیکھی چٹے ہو گئے بال

پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں جلنے لگے ہیں دانت
جگہ جگہ جھریوں سے بھر گئی سارے تن کی کھال

دیکھ کے اپنا حال ہوا پھر اس کو بہت ملال
ارے میں بڑھیا ہو جاؤں گی آیا نہ تھا خیال

اس نے سوچا
گر پھر سے مل جائے جوانی

جس کو لکھتے ہیں دیوانی
اور مستانی

جس میں اس نے انقلاب لانے کی ٹھانی
وہی جوانی

اب کی بار نہیں دوں گی کوئی قربانی
بس لاحول پڑھوں گی اور نہیں دوں گی کوئی قربانی

دل نے کہا
کس سوچ میں ہے اے پاگل بڑھیا

کہاں جوانی
یعنی اس کو گزرے اب تک کافی عرصہ بیت چکا ہے

یہ خیال بھی دیر سے آیا
بس اب گھر جا

بڑھیا نے کب اس کی مانی
حالانکہ اب وہ ہے نانی

ظاہر ہے اب اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی
آسمان پر لیکن تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے

رات کے پنچھی بول رہے تھے
اور کہتے تھے

یہ شاید اس کی عادت ہے
یا شاید اس کی فطرت ہے