میں خواجہ سراؤں کے شہر میں پیدا ہوا
میں اپنی تکمیل کا لگان کس کس کو دوں
ماں آٹا گوندھ کر بھوکی سو گئی
اور میں نے مٹی گوندھ کر اپنے لیے ایک خدا بنا لیا
سجدہ میری پیشانی کا زخم ہے
مگر میرا مرہم سفر سقراط کے پیالے میں پڑا ہے
خدا کا بوسہ میرا پہناوا تھا
مجھے بے لباس کر کے کٹہرا پہنا دیا گیا
میری زبان نے جلتے کوئلے کی گواہی چکھی
اور منصف نے میری آواز اپنے ترازو سے چرا لی
میں کیا کروں دیواروں
دیمک کا رزق بن جاؤں
یا چوہوں کو اپنے بدن میں بل بنا لینے دوں
جو میری چھٹی حس کترتا چاہتے ہیں
نظم
انحراف
انجم سلیمی