EN हिंदी
انفرادیت | شیح شیری
infiradiyat

نظم

انفرادیت

ناہید قاسمی

;

تمہیں یہ عذر ہے
تم کو جو دی گئی ہے زمیں

وہ مختصر ہے بہت
جو بازوؤں میں سمیٹو تو وہ سمٹ جائے

اسی لیے ہو تم احساس کم تری کا شکار
اور ان کو کتنی ارادت سے دیکھتے ہو

جنہیں
زمیں ملی ہے حدود نگاہ سے بھی بہت دور دور پھیلی ہوئی

سنو
زمیں کی وسعت تو کوئی چیز نہیں

جو نسل آئے گی کل وہ حدیں نہ ناپے گی
فقط یہ دیکھے گی

کہ جو لطافت قلب و نظر یہاں پر ہے
قریب و دور کہیں بھی نہیں

کہیں بھی نہیں
تم اپنے کاندھوں پہ اپنا ہی سر طلوع کرو

سفر شروع کرو