سمے ہے ایک سمندر
جگ صدیاں اور سال
موسم ماہ اور ہفتے
رات اور دن
شام و سحر
بحر وقت کے قطرے ہیں سب
اس ساگر کے کوئی نہیں ہیں کنارے
کوئی سفینہ پار نہیں کر پایا اس کو
ایک بلبلے کی گودی میں
تم میں ہم سب بہتے ہیں
اس سے قبل کہ ہم بھی یہیں پر
غرق یوں ہی ہو جائیں
کیوں نہ ہوا کے پنکھ لگا کر اڑ جائیں
ساون رت کے دھلے ہوئے سے آسمان میں
آج کے ڈوبتے سورج سے ہم آنکھ ملائیں
پل دو پل کو
اندر دھنش بن جائیں
نظم
اندر دھنش بن جائیں
سبودھ لال ساقی