EN हिंदी
التجا | شیح شیری
iltija

نظم

التجا

عامر عثمانی

;

تم روٹھ چکے دل ٹوٹ چکا اب یاد نہ آؤ رہنے دو
اس محفل غم میں آنے کی زحمت نہ اٹھاؤ رہنے دو

یہ سچ کہ سہانے ماضی کے لمحوں کو بھلانا کھیل نہیں
یہ سچ کہ بھڑکتے شعلوں سے دامن کو بچانا کھیل نہیں

رستے ہوئے دل کے زخموں کو دنیا سے چھپانا کھیل نہیں
اوراق نظر سے جلووں کی تحریر مٹانا کھیل نہیں

لیکن یہ محبت کے نغمے اس وقت نہ گاؤ رہنے دو
جو آگ دبی ہے سینے میں ہونٹوں پہ نہ لاؤ رہنے دو

جاری ہیں وطن کی راہوں میں ہر سمت لہو کے فوارے
دکھ درد کی چوٹیں کھا کھا کر لرزاں ہیں دلوں کے گہوارے

انگشت بہ لب ہیں شمس و قمر حیران و پریشاں ہیں تارے
ہیں باد سحر کے جھونکے بھی طوفان مسلسل کے دھارے

اب فرصت ناؤ نوش کہاں اب یاد نہ آؤ رہنے دو
طوفان میں رہنے والوں کو غافل نہ بناؤ رہنے دو

مانا کہ محبت کی خاطر ہم تم نے قسم بھی کھائی تھی
یہ امن و سکوں سے دور فضا پیغام سکوں بھی لائی تھی

وہ دور بھی تھا جب دنیا کی ہر شے پہ جوانی چھائی تھی
خوابوں کی نشیلی بد مستی معصوم دلوں پر چھائی تھی

لیکن وہ زمانہ دور گیا اب یاد نہ آؤ رہنے دو
جس راہ پہ جانا لازم ہے اس سے نہ ہٹاؤ رہنے دو

اب وقت نہیں ان نغموں کا جو خوابوں کو بیدار کریں
اب وقت ہے ایسے نعروں کا جو سوتوں کو ہشیار کریں

دنیا کو ضرورت ہے ان کی جو تلواروں کو پیار کریں
جو قوم و وطن کے قدموں پر قربانی دیں ایثار کریں

روداد محبت پھر کہنا اب مان بھی جاؤ رہنے دو
جادو نہ جگاؤ رہنے دو فتنے نہ اٹھاؤ رہنے دو

میں زہر حقیقت کی تلخی خوابوں میں چھپاؤں گا کب تک
غربت کے دہکتے شعلوں سے دامن کو بچاؤں گا کب تک

آشوب جہاں کی دیوی سے یوں آنکھ چراؤں گا کب تک
جس فرض کو پورا کرنا ہے وہ فرض بھلاؤں گا کب تک

اب تاب نہیں نظارے کی جلوے نہ دکھاؤ رہنے دو
خورشید محبت کے رخ سے پردے نہ اٹھاؤ رہنے دو

ممکن ہے زمانہ رخ بدلے یہ دور ہلاکت مٹ جائے
یہ ظلم کی دنیا کروٹ لے یہ عہد ضلالت مٹ جائے

دولت کے فریبی بندوں کا یہ کبر اور نخوت مٹ جائے
برباد وطن کے محلوں سے غیروں کی حکومت مٹ جائے

اس وقت بہ نام عہد وفا میں خود بھی تمہیں یاد آؤں گا
منہ موڑ کے ساری دنیا سے الفت کا سبق دہراؤں گا