EN हिंदी
علم کی ضرورت | شیح شیری
ilm ki zarurat

نظم

علم کی ضرورت

احمق پھپھوندوی

;

جہاں میں ہر طرف ہے علم ہی کی گرم بازاری
زمیں سے آسماں تک بس اسی کا فیض ہے جاری

یہی سرچشمۂ اصلی ہے تہذیب و تمدن کا
بغیر اس کے بشر ہونا بھی ہے اک سخت بیماری

بناتا ہے یہی انسان کو کامل ترین انساں
سکھاتا ہے یہی اخلاق و ایثار و روا داری

یہی قوموں کو پہنچاتا ہے بام اوج و رفعت پر
یہی ملکوں کے اندر پھونکتا ہے روح بیداری

اسی کے نام کا چلتا ہے سکہ سارے عالم میں
اسی کے سر پہ رہتا ہے ہمیشہ تاج سرداری

اسی کے سب کرشمے یہ نظر آتے ہیں دنیا میں
اسی کے دم سے رونق عالم امکاں کی ہے ساری

یہ لا سلکی، یہ ٹیلیفون یہ ریلیں، یہ طیارے
یہ زیر آب و بالائے فلک انساں کی طراری

حدود استوا قطبین سے یوں ہو گئے مدغم
کہ ہے اب ربع مسکوں جیسے گھر کی چار دیواری

سمندر ہو گئے پایاب صحرا بن گئے گلشن
کیا سائنس نے بھی اعتراف عجز و ناچاری

بخار و برق کا جرار لشکر ہے اب آمادہ
اگلوا لے زمین و آسماں کی دولتیں ساری

غرض چاروں طرف اب علم ہی کی بادشاہی ہے
کہ اس کے بازوؤں میں قوت دست الٰہی ہے

نگاہ غور سے دیکھو اگر حالات انسانی
تو ہو سکتا ہے حل یہ عقدۂ مشکل بہ آسانی

وہی قومیں ترقی کے مدارج پر ہیں فائق تر
کہ ہے جن میں تمدن اور سیاست کی فراوانی

اسی کے زعم میں ہے جرمنی چرخ تفاخر پر
اسی کے زور پر مریخ کا ہمسر ہے جاپانی

اسی کی قوت بازو پہ ہے مغرور امریکہ
اسی کے بل پر لڑکی ہو رہی ہے رستم ثانی

اشارے پر اسی کے نقل و حرکت ہے سب اٹلی کی
اسی کے تابع فرمان ہیں روسی و ایرانی

اسی کے جنبش ابرو پہ ہے انگلینڈ کا غرہ
اسی کے ہیں سب آوردے فرانسیسی و البانی

کوئی ملک اب نہیں جن میں یہ جوہر ہو نہ رخشندہ
نہ غافل اس سے چینی ہیں نہ شامی ہیں نہ افغانی

بغیر اس کے جو رہنا چاہتے ہیں اس زمانے میں
سمجھ رکھیں فنا ان کے لیے ہے حکم ربانی

زمانہ پھینک دے گا خود انہیں قعر ہلاکت میں
وہ اپنے ہاتھ سے ہوں گے خود اپنی قبر کے بانی

زمانے میں جسے ہو صاحب فتح و ظفر ہونا
ضروری ہے اسے علم و ہنر سے بہرہ ور ہونا

ترقی کی کھلی ہیں شاہراہیں دہر میں ہر سو
نظر آتا ہے تہذیب و تمدن سے جہاں مملو

چلے جاتے ہیں اڑتے شہسواران فلک پیما
خراج تہنیت لیتے ہوئے کرتے ہوئے جادو

گزرتے جا رہے ہیں دوسروں کو چھوڑتے پیچھے
کبھی ہوتا ہے صحرا مستقر ان کا کبھی ٹاپو

کمر باندھے ہوئے دن رات چلنے پر ہیں آمادہ
دماغ افکار سے اور دل وفور شوق سے ملول

الگ رہ کر خیال زحمت و احساس راحت سے
لگے ہیں اپنی اپنی فکر میں با خاطر یکسو

مگر ہم ہیں کہ اصلاً حس نہیں ہم کو کوئی اس کی
ہمارے پائے ہمت ان مراحل میں ہیں بے قابو

جہاں پہلا قدم رکھا تھا روز اولیں ہم نے
نہیں سرکے اس اپنے اصلی مرکز سے بقدر مو

یہ حالت ہے کہ ہم پر بند ہے ہر ایک دروازہ
نظر آتا نہیں ہرگز کوئی امید کا پہلو

مگر واحسرتا پھر بھی ہم اپنے زعم باطل میں
سمجھتے ہیں زمانے بھر سے آگے خود کو منزل میں

ضرورت ہے کہ ہم میں روشنی ہو علم کی پیدا
نظر آئے ہمیں بھی تاکہ اصل حالت دنیا

ہمیں معلوم ہو حالات اب کیا ہیں زمانے کے
ہمارے ساتھ کا جو قافلہ تھا وہ کہاں پہنچا

جو پستی میں تھے اب وہ جلوہ گر ہیں بام رفعت پر
جو بالک بے نشاں تھے آج ہے ان کا علم برپا

ہماری خوبیاں سب دوسروں نے چھین لیں ہم سے
زمانے نے ہمیں اتنا جھنجھوڑا کر دیا ننگا

روا داری، اخوت، دوستی، ایثار ،ہمدردی
خیال ملک و ملت، درد قوم، اندیشۂ فردا

یہ سب جوہر ہمارے تھے کبھی اے واۓ محرومی
بنے ہیں خوبیٔ قسمت سے جو اب غیر کا حصا

اگر ہو جائیں راغب اب بھی ہم تعلیم کی جانب
تو کر سکتے ہیں اب بھی ملک میں ہم زندگی پیدا

بہت کچھ وقت ہم نے کھو دیا ہے لیکن اس پر بھی
اگر چاہیں تو کر دیں پیش رو کو اپنے ہم پسپا

نکما کر دیا ہے کاہلی نے گو ہمیں لیکن
رگوں میں ہے ہماری خون ابھی تک دوڑتا پھرتا

کوئی مخفی حرارت گر ہمارے دل کو گرما دے
ہمارے جسم میں پھر زندگی کی روح دوڑا دے

وطن والو بہت غافل رہے اب ہوش میں آؤ
اٹھو بے دار ہو عقل و خرد کو کام میں لاؤ

تمہارے قوم کے بچوں میں ہے تعلیم کا فقداں
یہ گتھی سخت پیچیدہ ہے اس کو جلد سلجھاؤ

یہی بچے بالآخر تم سبھوں کے جانشیں ہوں گے
تم اپنے سامنے جیسا انہیں چاہو بنا جاؤ

بہت ہی رنج دہ ہو جائے گی اس وقت کی غفلت
کہیں ایسا نہ ہو موقع نکل جانے پہ پچھتاؤ

یہ ہے کار اہم دو چار اس کو کر نہیں سکتے
خدا را تم بھی اپنے فرض کا احساس فرماؤ

یہ بوجھ ایسا نہیں جس کو اٹھا لیں چار چھ مل کر
سہارا دو، سہارا دوسروں سے اس میں دلواؤ

جو ذی احساس ہیں حاصل کرو تم خدمتیں ان کی
جو ذی پروا ہیں ان کو جس طرح ہو اس طرف لاؤ

غرض جیسے بھی ہو جس شکل سے بھی ہو یہ لازم ہے
تم اپنے قوم کے بچوں کو اب تعلیم دلواؤ

اگر تم مستعدی کو بنا لو گے شعار اپنا
یقیں جانو کہ مستقبل ہے بے حد شاندار اپنا

خداوندا! دعاؤں میں ہماری ہو اثر پیدا
شب غفلت ہماری پھر کرے نور سحر پیدا

ہمارے سارے خوابیدہ قویٰ بے دار ہو جائیں
سر نو ہو پھر ان میں زندگی کی کر و فر پیدا

ہمیں احساس ہو ہم کون تھے اور آج ہم کیا ہیں
کریں ماحول ملکی کے لیے گہری نظر پیدا

ملا رکھا ہے اپنے جوہر کامل کو مٹی میں
ہم اب بھی خاک سے کر سکتے ہیں لعل و گہر پیدا

اگر چاہیں تو ہم مشکل وطن کی دم میں حل کر دیں
ہزاروں صورتیں کر سکتے ہیں ہم کارگر پیدا

بظاہر گو ہم اک تودہ ہیں بالکل راکھ کا لیکن
اگر چاہیں تو خاکستر سے کر دیں سو شرر پیدا

وطن کا نکبت و افلاس کھو دیں ہم اشارے میں
جہاں ٹھوکر لگا دیں ہو وہیں سے کان زر پیدا

ہم اس منزل کے آخر پر پہنچ کر بالیقیں دم لیں
اگر کچھ تازہ دم ہو جائیں اپنے ہم سفر پیدا

جو کوشش متحد ہو کر کہیں اک بار ہو جائے
یقیں ہے ملک کی قسمت کا بیڑا پار ہو جائے