ابو جان اکثر کہتے تھے
سچ کو ذرا مشکل آتی ہے
فتح مگر مل جاتی ہے
جیسے بھی حالات ہوں بد تر
کسی کے آگے جھکنا مت
ذہن کا سودا کرنا مت
امی کب پیچھے رہتی تھیں
وہ بھی ہمیشہ کہتی تھیں
بیٹا دین و مذہب کو اور عمدہ اخلاق کو تم
امی جان سا پیارا جانو لیکن جھوٹ اور مکر فریب
بد عہدی اور دل آزاری
ان سے دوری رکھنا تم
یاد ہیں مجھ کو وہ باتیں بھی مکتب میں جو آغا تھے
بڑے ہی پیار اور بڑی جتن سے
اجلے کاغذ جیسے دل پہ
ہم سب کے یہ لکھتے تھے
محنت دیانت اچھی باتوں جرأت اور حق گوئی کو
علم کا حاصل میری عزت گھر والوں کی دولت سمجھو
بھیا جو کم کم دکھتے تھے
گاؤں گاؤں پھرتے رہتے تھے
گندے مندے لوگوں کو بھوکے ننگے بچوں کو
جانے کیا کیا سکھلاتے تھے ہم جیسا ہی بتلاتے تھے
نہیں کسی سے نفرت کرنا آزادی پہ جاں دے دینا
اور بھی کچھ کہتے تھے وہ
یہ سب باتیں بچپن کی ہیں
لیکن اب تو باپ بھی ہوں میں
مکتب کے آغا کی طرح سے بچوں کا استاذ بھی ہوں میں
امی جان کی ساری باتیں اب بھی میرے ذہن میں ہیں
بھیا کے آدرشوں کو کبھی بھلا نہ پایا میں
پر اب جو میں دیکھ رہا ہوں سماج میں بستے لوگوں کو
امی ابو کی باتوں کا جو جو نتیجہ بھوگ رہا ہوں
آغا کے انمول سے موتی دیکھ کے سب ہنستے ہیں لوگ
بھیا کے آدرش کو بھی سب مرا مرا سا کہتے ہیں
پھر کیسے یہ ساری چیزیں میں اپنے بچوں کو دوں
ایسی گہری تاریکی میں امی ابو آغا کے
حق اخلاق اور گیان کے جگنو روشنی کیا پھیلائیں گے
یا گھپ اندھیرے کے اجگر
چن چن کے انہیں کھا جائیں گے
جب جب سوچتا ہوں یہ سب
دبدھا میں پڑ جاتا ہوں
تب ہولے سے دل میں اتر کر
امی جان کی روح مقدس
چپ کے سے کہہ جاتی ہے
بیٹے جب ابو نے میں نے
بھیا اور آغا صاحب نے
اپنی امانت دی تھی تجھ کو
تب بھی ایسے لوگ تھے بستے
تب بھی ایسا گھپ اندھیرا
ایسی ہی تاریکی تھی
نظم
علم سینہ
ابو بکر عباد