اک شہر تھا اک باغ تھا
اک شہر تھا
یا تازہ میووں سے لدا اک باغ تھا
اک باغ تھا
یا شوخ رنگوں سے بھرا بازار تھا
بازار تھا یا جگنوؤں کی روشنی سے کھیلتی اک رات تھی
اک رات تھی
یا گنگناتی جھومتی
نغمات کی بارش میں بھیگی
وصل کی سوغات تھی
اک شہر تھا اک باغ تھا اک رات تھی
اور ان کے دامن میں
بہار وصل کی سوغات تھی
اک روز رنگ و نور کے موسم کو
باد شرط اڑا کر لے گئی
اک موج خوں کہئے اسے
اس شہر کے اس باغ کے
نام و نشاں سارے بہا کر لے گئی
اے نوحہ گر
اے راقم افسانۂ زیر و زبر
اے چشم حیرت چشم تر
عبرت کی جا ہے کس قدر
اب یاد کا ہے ایک افسردہ نگر
اس شہر میں
کچھ دیر کو ٹھہریں ذرا
نوحہ کریں
قصہ لکھیں
تاریخ کے اوراق میں
اک باب کھولیں یاد کا
تقدیر ہست و بود کا
مغموم افسانہ لکھیں
نظم
اک شہر تھا اک باغ تھا
عین تابش