EN हिंदी
اک سوال خدائے برتر سے | شیح شیری
ek sawal KHuda-e-bartar se

نظم

اک سوال خدائے برتر سے

ساجدہ زیدی

;

ہم اس زمین و آسماں کے درمیاں
حیران ہیں اور سر گراں

اے خدائے دو جہاں!
اے حرف کن کے راز داں!

اے منبع کون و مکاں!
اتنا تو بتلا دے

کوئی ایسی بھی دنیا ہے
جہاں انسانیت کی صاف پیشانی پہ

علم و فن کی پو پھٹتی ہو اور
فکر و نظر کے آئینوں سے

نور کی کرنیں ابلتی ہوں
دلوں میں خیر و برکت کی دعائیں گونجتی ہوں

صبح دم آکاش کے نیلم تلے
جام حقیقت پی کے جینے کی تمنا رقص کرتی ہو

جہاں احساس کے کہرے سے
فکر نو کے تارے جھلملاتے ہوں

جہاں ہونٹوں پہ حرف آگہی کی جوت ہو
آنکھوں سے حیرت

ذہن سے وجدان کے چشمے ابلتے ہوں،
جہاں راتوں کے سناٹے میں

دل محو نیاز و نار رہتا ہو
فضائے بیکراں کے سحر کا ہم راز رہتا ہو

محبت، عشق، دل داری، وفا عنوان ہستی ہوں
اخوت، نرم گفتاری عطاء پیمانۂ دل ہوں

خدائے لم یزل بتلا
کوئی ایسی بھی دنیا ہے

کہیں ایسا بھی ہوتا ہے
سیاست کی فسوں سازی

تجارت کی زیاں کاری
ہوس کی گرم بازاری

کسی عیار قوت کی جہاں داری
میں دم گھٹتا ہے

ہر لمحہ عذاب جاوداں معلوم ہوتا ہے
''خداوند! یہ تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں؟''