EN हिंदी
اک کہانی سنوگی | شیح شیری
ek kahani sunogi

نظم

اک کہانی سنوگی

محمد اعظم

;

رات
جنگل گھنا

وہ گرجتی ہوا
دو درختوں کی کونپل بھری ڈالیاں

ایک سے ایک اس طرح
ٹکرا گئیں

جیسے برسوں جدائی میں جلتے بدن
بات پوری سنو تم تو شرما گئیں

آگ پیدا ہوئی
پیڑ جلنے لگے

شور برپا ہوا
ہر طرف دھواں ہی دھواں

اور پھر
نہ پوچھو کہ پھر کیا ہوا

راکھ کے ڈھیر کو
اب مناسب نہیں چھیڑنا