اے ارض و سما کے خالق
بے عیب و دانا رحیم و مالک
نہ جانے کتنی ہے مخلوق تیری
حساب کیسے تو رکھتا ہوگا
کہیں پہ انساں کہیں پہ شیطاں
فرشتے جن اور طیور و حیواں
بحر و بر میں زمیں کے بھیتر
سنگ و چوب اور فضا کے اندر
ہیں اور بھی تو کروڑوں ذی روح
ہیں سب کے سب جو مطیع و قائل
مگر وہ عالم فہیم جس کو
کہ تو نے احسن تریں بنایا
اشرف الخلق ذکی بنایا
وہی جو ہم ہیں کہ یعنی انساں
ہے دعویٰ جس کو پیمبری کا
ملائک و جن پہ برتری کا
ہے جس کی خدمت میں چاند سورج
ہوا سمندر پہاڑ بادل
زمیں کا مدفن فضا کی وسعت
نہ جانے پھر کیا ہوا یہ ہم کو
رذیل بنتے چلے گئے ہم
بچوں بوڑھوں پہ قہر ڈھا کر
خبیث بنتے چلے گئے ہم
خود اپنی بیٹی بہن کو اپنے
ہوس کا لقمہ بنا رہے ہیں
اپنی ماں کو بہو کو اپنی
اشکوں میں ہم ڈبو رہے ہیں
امن کی جگہوں کو روند ڈالا
تمہیں بھی حصوں میں بانٹ ڈالا
خدایا کوئی خطا ہوئی ہے
یا شاید ہم سے یا شاید تجھ سے
حساب میں تیرے کمی ہے شاید
یا میری فطرت بدل گئی ہے
اے خالق کائنات و برتر
بس ایک فریاد اور سن لے
حساب اپنا تو ٹھیک کر لے
یا پھر سے فطرت بدل دے میری
نظم
ابن قابیل کی دعا
ابو بکر عباد