تم خدا ہو
خدا کے بیٹے ہو
یا فقط امن کے پیمبر ہو
یا کسی کا حسیں تخیل ہو
جو بھی ہو مجھ کو اچھے لگتے ہو
مجھ کو سچے لگتے ہو
اس ستارے میں جس میں صدیوں کے
جھوٹ اور کذب کا اندھیرا ہے
اس ستارے میں جس کو ہر رخ سے
رینگتی سرحدوں نے گھیرا ہے
اس ستارے میں جس کی آبادی
امن بوتی ہے جنگ کاٹتی ہے
رات پیتی ہے نور مکھڑوں کا
صبح سینوں کا خون چاٹتی ہے
تم نہ ہوتے تو جانے کیا ہوتا
تم نہ ہوتے تو اس ستارے میں
دیوتا راکشش غلام امام
پارسا رند راہ بر رہزن
برہمن شیخ پادری، بھکشو
سبھی ہوتے مگر ہمارے لیے
کون چڑھتا خوشی سے سولی پر
جھونپڑوں میں گھرا یہ ویرانہ
مچھلیاں دن میں سوکھتی ہیں جہاں
بلیاں دور بیٹھی رہتی ہیں
اور خارش زدہ سے کچھ کتے
لیٹے رہتے ہیں بے نیازانہ
دم مروڑے کہ کوئی سر کچلے
کاٹنا کیا وہ بھونکتے بھی نہیں
اور جب وہ دہکتا انگارہ
چھن سے ساگر میں ڈوب جاتا ہے
تیرگی اوڑھ لیتی ہے دنیا
کشتیاں کچھ کنارے آتی ہیں
بھنگ گانجا، چرس شراب، افیون
جو بھی لائیں جہاں سے بھی لائیں
دوڑتے ہیں ادھر سے کچھ سایے
اور سب کچھ اتار لاتے ہیں
گاڑی جاتی ہے عدل کی میزان
جس کا حصہ اسی کو ملتا ہے
یہاں خطرہ نہیں خیانت کا
تم یہاں کیوں کھڑے ہو مدت سے
یہ تمہاری تھکی تھکی بھیڑیں
رات جن کو زمیں کے سینے پر
صبح ہوتے انڈیل دیتی ہے
منڈیوں ،دفتروں ملوں کی طرف
ہانک دیتی دھکیل دیتی ہے
راستے میں یہ رک نہیں سکتیں
توڑ کے گھٹنے جھک نہیں سکتیں
ان سے تم کیا توقع رکھتے ہو
بھیڑیا ان کے ساتھ چلتا ہے
تکتے رہتے ہو اس سڑک کی طرف
دفن جن میں کئی کہانیاں ہیں
دفن جن میں کئی جوانیاں ہیں
جس پہ اک ساتھ بھاگی پھرتی ہیں
خالی جیبیں بھی اور تجوریاں بھی
جانے کس کا ہے انتظار تمہیں
مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں
جس کو کوڑوں کی چھاؤں میں دنیا
بیچتی بھی خریدتی بھی تھی
مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں
جس کو کھیتوں سے ایسے باندھا تھا
جیسے میں ان کا ایک حصہ تھا
کھیت بکتے تو میں بھی بکتا تھا
مجھ کو دیکھو کہ میں وہی تو ہوں
کچھ مشینیں بنائیں جب میں نے
ان مشینوں کے مالکوں نے مجھے
بے جھجک ان میں ایسے جھونک دیا
جیسے میں کچھ نہیں ہوں ایندھن ہوں
مجھ کو دیکھو کہ میں تھکا ہارا
پھر رہا ہوں جگوں سے آوارہ
تم یہاں سے ہٹو تو آج کی رات
سو رہوں میں اسی چبوترے پر
تم یہاں سے ہٹو خدا کے لیے
جاؤ وہ وتنام کے جنگل
اس کے مصلوب شہر زخمی گاؤں
جن کو انجیل پڑھنے والوں نے
روند ڈالا ہے پھونک ڈالا ہے
جانے کب سے پکارتے ہیں تمہیں
جاؤ اک بار پھر ہمارے لیے
تم کو چڑھنا پڑے گا سولی پر
نظم
ابن مریم
کیفی اعظمی