گلا رندھا ہو تو ہم بات کر نہیں سکتے
اشاروں اور کنایوں سے اپنے مطلب کو
بجائے کانوں کے آنکھوں پہ تھوپ دیتے ہیں
گلا تھا صاف تو کیا ہم نے تیر مارا تھا
یہی کہ نام کمایا تھا یاوہ گوئی میں
غزل سرائی میں یا فلسفہ طرازی میں
مگر وہ بات جو سچ ہے ابھی گلے میں ہے
گلا رندھا ہو گلا صاف ہو تو فرق ہی کیا
نظم
ابلاغ
سلیمان اریب