EN हिंदी
ابہام دیدہ | شیح شیری
ibham dida

نظم

ابہام دیدہ

وہاب دانش

;

مخاطب
آسماں ہے یا زمیں

معلوم کر لینا
کہ دونوں کے لیے تشبیب کے

مصرعے الگ سے ہیں
کہیں ایسا نہ ہو

کہ آسماں بدظن
زمیں ناراض ہو جائے

قصیدے میں گریز ناروا کا
موڑ آ جائے

ترے سر پہ کوئی الزام عائد ہو
کہ تو بھی عندلیب گلشن نا آفریدہ ہے

سخن فہمی تری گنجلک
بیاں ابہام دیدہ ہے

یہ مشورہ اس لیے دیتا ہوں
جان من

کہ گردش میں گھرا ہے آسماں
برہم طبق سارے

زمیں بھی اپنے محور سے الگ چکر لگاتی ہے
قصیدہ سوچ کے لکھنا

کہیں انعام و خلعت کی جگہ
کاسہ نہ بھر جائے

ملامت سے
خجالت سے

ندامت سے