ہمیں بھی رو لے ہجوم گریہ کہ پھر نہ آئیں گے غم کے موسم
ہمیں بھی رو لے کہ ہم وہی ہیں
جو آفتابوں کی بستیوں سے سراغ لائے تھے ان سویروں کا جن کو شبنم کے پہلے قطروں نے غسل بخشا
سفید رنگوں سے نور معنی نکال لیتے تھے اور چاندی اجالتے تھے
شفق پہ ٹھہرے سنہرے بادل سے زرد سونے کو ڈھالتے تھے
خنک ہواؤں میں خوشبوؤں کو ملا کے ان کو اڑانے والے
صبا کی پرتوں پہ شعر لکھ کر عدم کی شکلیں بنانے والے
دماغ رکھتے تھے لفظ و معنی کا اور دست ہنر کے مالک
وقار نور چراغ ہم تھے
ہمیں بھی رو لے ہجوم گریہ
ہمیں بھی رو لے کہ ہم وہی ہیں
جو تیز آندھی میں صاف چہروں کو دیکھ لیتے تھے اور سانسوں کو بھانپتے تھے
فلک نشینوں سے گفتگوئیں تھیں اور پریوں سے کھیلتے تھے
کریم لوگوں کی صحبتوں میں کشادہ کوئے سخا کو دیکھا
کبھی نہ روکا تھا ہم کو سورج کے چوبداروں نے قصر بیضا کے داخلے سے
وہی تو ہم ہیں
وہی تو ہم ہیں جو لٹ چکے ہیں حفیظ راہوں پہ لٹنے والے
اسی فلک کی سیہ زمیں پر جہاں پہ لرزاں ہیں شور نالہ سے عادلوں کی سنہری کڑیاں
ہمیں بھی رو لے ہجوم گریہ
ہمیں بھی رو لے کہ ان دنوں میں ہماری پشتوں پہ بار ہوتا ہے زخم تازہ کے سرخ پھولوں کا اور گردن میں سرد آہن کی کہنہ لڑیاں
ہماری ضد میں سفید ناخن قلم بنانے میں دست قاتل کا ساتھ دیتے ہیں اور نیزے اچھالتے ہیں
ہوا کی لہروں نے ریگ صحرا کی تیز دھاروں سے رشتے جوڑے
شریر ہاتھوں سے کنکروں کی سیاہ بارش کے رابطے ہیں
ہماری ضد میں ہی ملکوں ملکوں کے شہریاروں نے عہد باندھے
یہی کہ ہم کو دھوئیں سے باندھیں اور اب دھوئیں سے بندھے ہوئے ہیں
سو ہم پہ رونے کے نوحہ کرنے کے دن یہی ہیں ہجوم گریہ
کہ مستعد ہیں ہمارے ماتم کو گہرے سایوں کی سرد شامیں
خزاں رسیدہ طویل شامیں
ہمیں بھی رو لے ہجوم گریہ کہ پھر نہ آئیں گے غم کے موسم
نظم
ہجوم گریہ
علی اکبر ناطق