وہ خاموش تھی
اپنے دوزخ میں جلتی ہوئی
نیلگوں پانیوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی
اک مچلتی ہوئی موج مہتاب کی سمت لپکی
مگر
ریت پر آ گری سیپ اگلتی ہوئی
خامشی کے بھنور سے نکلتی ہوئی
وہ ہنسی اور ہنسی
بریزیر میں سے باہر پھسلتی ہوئی
اب وہ لڑکی نہیں صرف انگڑائی تھی
اک توانائی تھی
نیم وا آنکھ میں کسمساتی ہوئی
ہاتھ ملتی ہوئی
اک سمندر تھا بپھرا ہوا
اک شب تھی نہ ڈھلتی ہوئی

نظم
ہسٹریا
جاوید انور