EN हिंदी
حساب شب | شیح شیری
hisab-e-shab

نظم

حساب شب

سحر انصاری

;

میں اپنے آپ گم صم اداس واماندہ
یہ سوچتا ہوں کہ کیا حق ہے مجھ کو جینے کا

نہ ماہتاب مرا ہے نہ آفتاب مرا
نہ دن کے رنگ مرے ہیں نہ لطف خواب مرا

کوئی قریب سے دیکھے تو میرے دامن میں
شکایتیں بھی بہت ہیں محبتیں بھی بہت

روایتیں بھی بہت ہیں بغاوتیں بھی بہت
پھر اک سوال ہے بیدار شب کے آنگن میں

جو خود ہی جاگ رہا ہو اداس بستر پر
وہ شب کے رینگتے لمحات سے کہے کیوں کر

سیاہ رات ہے آؤ لپٹ کے سو جاؤ
افق کے پار نگار سحر کو کیا معلوم

دیار شب میں گزرتی ہے زندگی کیسے
میں ان کو اپنے غموں کا گواہ کیسے کروں

نشاط زیست جو سمجھیں مری مشقت کو
مثال ریگ بکھرتے ہوئے بدن کے سوا

تمام دن کی تھکن کا کوئی گواہ نہیں
مجھے ہوائے سر رہ گزر پسند سہی

مگر ہوائے سر رہ گزر مرے حق میں
سموم طعنہ و دشنام لے کے آئی ہے

مری سحر کے لیے شام لے کے آئی ہے
خلوص و رشتۂ مہر و وفا سے کیا حاصل

کچھ اور چاہئے اس عہد کی محبت کو
کہوں تو کس سے کہوں اے مرے بت معصوم

متاع قلب و نظر ہار کر ہوا معلوم
فریب تھیں تری بانہیں سراب تھے ترے ہونٹ

جب آنسوؤں پہ متاع وفا کا دھوکا تھا
تو ریگ دشت کے مانند خشک تھیں آنکھیں

اب آنسوؤں کی کوئی قدر ہے نہ قیمت ہے
تو اشک بار ہی رہنے لگی ہیں آنکھیں بھی

میں سوچتا ہوں مجھے حزم و احتیاط سے کیا
یہ زندگی جو دوبارہ نہیں ملے گی مجھے

گزار دوں گا یوں ہی گھوم پھر کے سڑکوں پر
مرے لیے یہی غم ہیں یہی مسائل ہیں

میں رائیگاں ہوں کہ ہوں کامراں نہیں معلوم
یہی ہے جرم مرا ہے یہی خطا میری

رہوں ہوا کی طرح دشت و در میں آوارہ
کبھی ہوں جنگ پہ نادم کبھی ہے صلح سے خوف

یہ جنگ و صلح کا مفہوم آج کل کیا ہے
اسی خیال میں جس وقت نیند آتی ہے

مرے لہو میں مری سانس میں مرے دل میں
غموں کی اجنبی زنجیر کھڑکھڑاتی ہے

میں خوف حبس سے یک لخت جاگ اٹھتا ہوں
یہ سوچتا ہوں کہ بیداریوں میں عالم خواب

عذاب ہے نفس آتش آشنا کا عذاب
مرا سکوں کسی مجرم کی مہلت تعزیر

مری خوشی کسی قیدی کا میہماں جیسے
مرا وجود گزرتا ہوا دھواں جیسے

خود اپنے آپ پہ اب یوں مجھے تأسف ہے
تمام عمر رہا ہوں میں رائیگاں جیسے