سر بکف ہند کے جاں باز وطن لڑتے ہیں
تیغ نو لے صف دشمن میں گھسے پڑتے ہیں
ایک کھاتے ہیں تو دو منہ پہ وہیں جڑتے ہیں
حشر کر دیتے ہیں برپا یہ جہاں اڑتے ہیں
جوش میں آتے ہیں دریا کی روانی کی طرح
خون دشمن کا بہا دیتے ہیں پانی کی طرح
جب بڑھاتے ہیں قدم پیچھے پھر ہٹتے ہی نہیں
حوصلے ان کے جو بڑھتے ہیں تو گھٹتے ہی نہیں
دم پیکار حریفوں سے یہ کٹتے ہی نہیں
الٹے قدموں پہ بلا فتح پلٹتے ہی نہیں
ہیچ ہیں ان کے لیے آہنی دیواریں بھی
روک سکتی نہیں فولاد کی دیواریں بھی
جذبۂ حب وطن دل میں نہاں رکھتے ہیں
مثل خوں جوش یہ رگ رگ میں رواں رکھتے ہیں
سر ہتھیلی پہ تو قبضے میں سناں رکھتے ہیں
آنکھ جھپکانے کی بھی تاب کہاں رکھتے ہیں
نکلی ہی پڑتی ہیں خود میان سے تیغیں ان کی
ڈھونڈھتی اپنا مقابل ہیں نگاہیں ان کی
کھنچ کے دشمن سے گلے تیغ رواں ملتی ہے
دم دفنا کرنے کو غارت گر جاں ملتی ہے
خون کا بہتا ہے دریا یہ جہاں ملتی ہے
موت کی گود میں دشمن کو اماں ملتی ہے
تیغ کے گھاٹ اترتا ہے مقابل ان کا
رن میں پانی بھی نہیں مانگتا بسمل ان کا
وار بھولے سے بھی پڑتا نہیں اوچھا ان کا
ہاتھ ہوتا ہے زباں کی طرح سچا ان کا
جس نے دیکھا کبھی منہ دیکھا نہ پیچھا ان کا
موت بھی مانتی ہے رزم میں لوہا ان کا
رن میں بپھرے ہوئے شیروں کی طرح لڑتے ہیں
صاف کر دیتے ہیں جس صف پہ یہ جا پڑتے ہیں
منہ پہ تلوار کی چڑھتے ہیں سپر کی صورت
تیغ کے پھل کو یہ کھاتے ہیں ثمر کی صورت
حوصلے اور بڑھاتی ہے خطر کی صورت
موت میں بھی نظر آتی ہے ظفر کی صورت
چھلنی ہو جاتا ہے زخموں سے اگر تن ان کا
تیغ کے سایہ میں بن جاتا ہے مدفن ان کا
رزم کو بزم سمجھتے ہیں یہ مردان وطن
شاہد مرگ ہے ان کے لیے چوتھی کی دلہن
یہ وہ سر باز ہیں رکھتے ہیں بہم تیغ و کفن
ہاتھ دکھلاتے ہیں جب پڑتا ہے گھمسان کا رن
ان کی شمشیر دو پیکر پہ ظفر صدقے ہے
ان کا برطانیہ کے نام پہ سر صدقے ہے
نظم
ہند کے جاں باز سپاہی
برق دہلوی