بھلا مجال کہاں مجھ سے بے زبانوں کی
کہ منہ سے بات کہوں کچھ فلک نشانوں کی
ترے وجود سے عالم یہ ہو گیا روشن
کہ خاک ہند میں رفعت ہے آسمانوں کی
وہ پھول ہیں ترے دامن میں سامنے جن کے
بہار گرد ہے دنیا کے گلستانوں کی
گپھاؤں سے تری نکلیں تو سارے عالم میں
صدائیں گونج اٹھیں توحید کے ترانوں کی
بلندیوں سے تری جب رواں ہوئے چشمے
حیات جن سے ہے دنیا کے باغبانوں کی
مئے مجاز میں جو نشۂ حقیقت ہے
وہ یادگار ہے تو عشق کے فسانوں کی
تری بلندی غرور وقار کے آگے
چلی نہ ایک ہوائی جہاز رانوں کی
وہ صور پھونک دے اپنے لب مبارک سے
کہ یاد تازہ ہو بھولے ہوئے فسانوں کی
اٹل ہوں جن کے ارادے خیال جن کے بلند
اٹھیں اب ایسے زمین وطن سے حوصلہ مند
نظم
ہمالہ سے دو دو باتیں
جگر بریلوی