EN हिंदी
ہمالہ | شیح شیری
himala

نظم

ہمالہ

ابرارالحسن

;

عجیب بیزار شخص ہے وہ
اسے عقیدت اذیتوں آزمائشوں سے

وہ سر پہ دنیا کا بوجھ ڈالے
روایتوں کے لئے حوالے

تمام ہمت بکف دیانت
کنواں نیا روز کھودتا ہے

پھر اس میں گرتا ہے
گر کے خود کو نکالنے کی مہم میں دن رات کاٹتا ہے

اسے محبت ہے ذات کی گہری کھائیوں سے
کمال حیرت ہے اس نے خود سے کبھی نہ پوچھا

یہ بوجھ کیسا اٹھا رکھا ہے
ہے اس اذیت میں مصلحت کیا

قدم قدم خار دار رستے
یہ دشت و دریا یہ کوہساروں کے سلسلے سے

یہ چھوٹی چھوٹی رکاوٹیں ایک پھول حد تک
یہ لمحے لمحے کی مسکراہٹ کے منتظر لوگ ہسپتالوں میں

میری آنکھوں سے کیوں چھپے ہیں
یہ میرے خوابوں سے دور کیوں ہیں

سلے ہوئے ان کے ہونٹ کیوں ہیں
کمال حیرت ہے اس نے خود سے کبھی نہ پوچھا

کوئی صدا سرفروش جذبہ
کوئی ندا کیوں نہیں بلاتی

اے دام کلفت کے بے ریا دائمی ستم کش
میں منتظر ہوں

کبھی مجھے بھی تو آزما لے