EN हिंदी
حکمت کا بت خانہ | شیح شیری
hikmat ka but-KHana

نظم

حکمت کا بت خانہ

بیباک بھوجپوری

;

شراب شور سے لبریز ہے دنیا کا پیمانہ
حریف‌ دین و دانش ہے مذاق پیر مے خانہ

بشر ابلیس کو تزویر نو کا درس دیتا ہے
مزین ہے گناہ گوناگوں سے ہر پری خانہ

علوم‌ نو سے روشن بزم ہے تہذیب حاضر کی
ید تجدید نے ڈھالا ہے دل آویز بت خانہ

یہ مانا مغربی تعلیم نے پرواز بخشی ہے
یہ ماہ و خور بھی بن جائیں گے اب قندیل کا شانہ

خدا کے چاہنے والے ابھی تک بھولے بھالے ہیں
بنا رکھا ہے حرز جاں سدا ماضی کا افسانہ

گناہ تازہ کی تخلیق سے ابلیس قاصر ہے
دماغ فتنہ جو پر ہے مسلط ضعف پیرانہ

بہت مجبور بے چارہ ہے خود پیرانہ سالی سے
اسے معلوم کیا ہے معصیت کا تازہ پیمانہ

خدا والے تعجب ہے کہ معصوم و مقدس ہیں
عذاب نو بہ نو سے ہے مرصع آئنہ خانہ

رہ تشکیک پر رخش ہنر پیہم خراماں ہے
بہت مشکل ہے فطرت کا ابھی تسخیر فرمانا

مساوات نظر کا مدتوں سے شور سنتا ہوں
فضا دنیا کی ہے لیکن ابھی تک فرقہ‌ وارانہ

ہوس کا درس تو یارو بہت ہی خوب ہے لیکن
ابھی قرآن کی تفہیم سے عاجز ہے فرزانہ

بتوں کا توڑنا تھا کار آساں عہد ماضی میں
ولے مشکل ہے ڈھانا آج کی حکمت کا بت خانہ

قلوب عصر‌ حاضر میں ابھی ایمان ڈھل جائے
فقیروں کا نہیں دیکھا ہے اعجا‌‌ز کلیمانہ

تفاخر کے مریضوں کے لئے اکسیر ہوتی ہے
سراسر بندۂ‌ بیباکؔ کی طرز فقیرانہ