EN हिंदी
حکایت گریزاں | شیح شیری
hikayat-e-gurezan

نظم

حکایت گریزاں

زاہدہ زیدی

;

میں کہ لا انتہا وقت کی رہ گزر پر
صرف اک لمحۂ مختصر

میں کہ احساس و افکار کے بحر ذخار میں
صرف اک قطرہ مضطرب میں کہ صحرائے ہستی کی تپتی ہوئی ریت پر

صرف اک ذرہ سرنگوں
میں کہ اک وسعت کائنات حسیں میں

صرف اک نقطۂ بے سکوں
میں وہ قطرہ کہ جس میں سمندر کی بیتابیاں موجزن ہیں

وہ لمحہ جو مستقبل و حال و ماضی کا آئنہ ہے
میں وہ نقطہ کہ جو گردش دہر کا آشنا ہے

میں وہ ذرہ کہ صحرائے ہستی کی تشنہ لبی
اپنے دل میں چھپائے

میں وہ اک جسم نازک کہ جو
نسل انساں کے درد اور عصیاں کا بار گراں

اپنے سر پر اٹھائے
میں وہ اک چشم پر شوق جس کے لیے وسعت دشت و صحرا بھی کم تھی

میں نے پھر چاند تاروں پر ڈالی کمندیں
آسمانوں کے وہ جگمگاتے مکیں

اس انوکھی جسارت پہ سب مسکرائے
میں کہ خود محرم ذوق پرواز

ہم راز سر بلندی
چاند تاروں کی محفل سے نظریں چرائے

میں کہ خود ساغر شوق
پیمانۂ جذب و مستی

حلقۂ مے گساراں سے دامن بچائے
میں کہ خود جرأت احترام دید

خود جرأت احترام
صرف اک جرأت آرزو پر پشیماں

میں کہ خود سارے عالم کے درد و الم کی امیں
اپنے زخموں کے آتش نوائی پہ خنداں

میں کہ ہر راز سر بستہ سے آشنا
میں کہ آہنگ ہستی کی ہم راز ہوں

میں ہوں صدیوں کی کھوئی ہوئی اک صدا
میں عناصر کا ٹوٹا ہوا ساز ہوں