EN हिंदी
ہجرت | شیح شیری
hijrat

نظم

ہجرت

آفتاب شمسی

;

بہت دنوں سے مجھے انتظار ہے لیکن
تمہارے شہر سے کوئی یہاں نہیں آیا

میں سوچتا ہوں تو بس یہ کہ اب تمہاری شکل
گزرتے وقت کے ہاتھوں بدل گئی ہوگی

خمیدہ زلفوں کی کالی گھٹا میں اب شاید
سفید بالوں کی تعداد بڑھ گئی ہو گی

تمہارے گال پہ جو ایک تل چمکتا تھا
پتہ نہیں وہ چمک اس میں اب بھی باقی ہے

تمہاری آنکھوں میں اک چاندنی سی روشن تھی
پتہ نہیں وہ دمک اس میں اب بھی باقی ہے

تمہاری باتوں میں پھولوں کی سی مہک تھی جو
پتہ نہیں وہ مہک اب بھی سننے والے کو

مشام جاں میں اتر کر نہال کرتی ہے
تمہارے ماتھے پہ جو ایک چاند روشن تھا

مجھے گمان ہے وہ چاند بجھ گیا ہوگا
میں سوچتا ہوں تو بس اس قدر کہ اب تم نے

پرانے قصے کو دل سے بھلا دیا ہوگا
یقیں مجھے بھی ہے اب مل نہ پائیں گے ہم تم

مگر یہ رشتۂ دل کس طرح سے توڑا جائے
فسانہ جو کہ مکمل نہ ہو سکا اس کو

کہاں پہ ختم کیا جائے کیسے موڑا جائے
بہت دنوں سے مجھے انتظار ہے لیکن

تمہارے شہر سے کوئی یہاں نہیں آیا