مرے دکھ کا عہد طویل ہے
مرا نام لوح فراق پر ہے لکھا ہوا
میں جنم جنم سے کسی میں عکس مشابہت کی تلاش میں
پھر اپنے خواب سراب ساتھ لیے ہوئے
گیا شہر شہر نگر نگر
تھیں عجیب بستیاں راہ میں میری جیت میری شکست کی
کسی دوسرے کی صداقتیں مری راہبر مری راہزن
لیے ساتھ ساتھ قدم قدم
کبھی پیش خلوت آئینہ
کبھی صبح و شام کی خلقتوں کے جلوس میں
کئی ظاہروں، کئی باطنوں کے بدلتے روپ میں منقسم
مجھے کر گئیں
میں دھواں سا آتش اصل کا
اڑا اور خود سے بچھڑ گیا
مجھے ہر قدم پہ لگا کہ میں
سفر آزما ہوں مگر مجھے مری سمت کی بھی خبر نہیں
میں حلیف اپنے غنیم کا
ہوں جہاں بھی راہ زیاں میں ہوں
میں خیال پرور شوق شہر مثال کا
مجھے ہر مقام پہ یوں لگا
کہ حقیقتوں کے سگان کوچہ نورد مجھ پہ جھپٹ پڑیں گے یہیں کہیں
مجھے دنیا دار پچھاڑ دیں گے مفاہمت کی زمین پر
مرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سے
مری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر
یہ فرار تھا
کہ انا کا سایہ و سائباں
لیا جس نے اپنے بچاؤ میں
میں رواں رہا کسی بے نمود سی روشنی کے بہاؤ میں
میرا پائے شوق سزا کہیں پہ رکا نہیں
یہ نشیب شام ہے اور میں ہوں رواں دواں
یہ نہیں کہ مجھ کو اماں ملے گی شب ابد کے پڑاؤ میں
ذرا انتظار کہ جب وجود کا کوزہ گر
مجھے پھر سے خاک بنا چکے
تو یہ دیکھنا
کہ شبیہ شخص دگر میں لوٹ کے آؤں گا
اسی شہر میں
مرا نام لوح فراق پر ہے لکھا ہوا
مرے دکھ کا عہد طویل ہے
نظم
ہجر زاد
آفتاب اقبال شمیم