درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسن مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانۂ تن میں گویا
سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصت قافلۂ شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دل داری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
نظم
ہارٹ اٹیک
فیض احمد فیض