EN हिंदी
ہیولے | شیح شیری
hayule

نظم

ہیولے

عارف عبدالمتین

;

سمندروں کے مہیب طوفاں میرے عزائم کے ساحلوں سے شکست کھا کر پلٹ چکے ہیں
میں کوہساروں کی ہستبوں سے بھی آسماں کا وقار بن کر الجھ چکا ہوں

میں جنگلوں کی ہواؤں کا زور توڑ دیتا رہا ہوں اپنے نفس کی شوریدہ سطوتوں سے
مرے تفکر کی گرم رفتاریوں سے لرزاں رہے ہیں صحراؤں کے بگولے

یہ ذکر ہے اس طویل ماضی کا میں اکیلا تھا اس بھری کائنات میں جب
فقط مری جاں گداز تنہائی سایہ بن کر تھی ساتھ میرے

میں ان دنوں سوچتا تھا میرا وجود آئینہ دار تاب و تواں ہے جس کو
زوال آمادگی سے نسبت نہیں ہے کوئی

اور آج جب کہ یہ میرے بچے
جنہیں زمانے کی آنکھ نے میرے دست و بازو کا روپ سمجھا

مری توانائیوں کے مرکز کا عکس جانا
مرے رگ و پے میں ایک احساس خوف ہر دم ابھارتے ہیں

تو سوچتا ہوں
میں کتنا کمزور ہو گیا ہوں

ہوا کا اک ناتواں سا جھونکا بھی ان کے پہلو سے جب گزرتا ہے
لاکھ اندیشے جاگ اٹھتے ہیں میرے دل میں

عجیب تشویش گھیر لیتی ہے جسم و جاں کی تمام تابندہ وسعتوں کو
میں اپنے بچوں کو اپنی قوت کہوں کہ بے ہمتی کا مظہر