EN हिंदी
ہیولیٰ | شیح شیری
hayula

نظم

ہیولیٰ

عزیز تمنائی

;

مہ و سال کے تانے بانے کو
زریں شعاعوں کی گل کاریاں

میری نظروں نے بخشی ہیں
آفاق کے خد و خال بہار آفریں میں

مرے خوں کی سوغات شامل ہے
ہر وسعت بے کراں میں

مری دھڑکنیں گونجتی ہیں
ہر اک لمحہ کوئی نہ کوئی بگولہ اٹھا

اور مرے نقش پا کو مٹانے کی دھن میں چلا
لیکن آواز پا کی گرجتی گھٹاؤں سے

ٹکرا کے دشت خموشی میں
گم ہو گیا

ہر اک گام سمتوں نے
سنگیں شکنجوں میں کسنے کی

حسرت کو رسوا کیا
مری فکر کی لو

سموم و صبا کی
فسوں کاریوں سے گریزاں

مسلسل فروزاں رہی
یہ وہ آنچ ہے جس کی حدت سے

ہر قوت سنگ سازی پگھلتی رہی
مگر آج میری انا کے ہیولیٰ میں

خود ساختہ کچھ لکیریں ابھر آئی ہیں
مجھ کو ڈر ہے

کہیں پھیلتے پھیلتے یہ لکیریں
مری ذات کو پارہ پارہ نہ کر دیں

عناصر کو پھر آشکارہ نہ کر دیں