شدت افلاس سے جب زندگی تھی تجھ پہ تنگ
اشتہا کے ساتھ تھی جب غیرت و عصمت کی جنگ
گھات میں تیری رہا یہ خود غرض سرمایہ دار
کھیلتا ہے جو برابر نوع انساں کا شکار
رفتہ رفتہ لوٹ لی تیری متاع آبرو
خوب چوسا تیری رگ رگ سے جوانی کا لہو
کھیلتے ہیں آج بھی تجھ سے یہی سرمایہ دار
یہ تمدن کے خدا تہذیب کے پروردگار
سامنے دنیا کے تف کرتے ہیں تیرے نام پر
خلوتوں میں جو ترے قدموں پہ رکھ دیتے ہیں سر
راستے میں دن کو لے سکتے نہیں تیرا سلام
رات کو جو تیرے ہاتھوں سے چڑھا جاتے ہیں جام
تیرے کوچہ سے جنہیں ہو کر گزرنا ہے گناہ
گرم ان کی سانس سے رہتی ہے تیری خواب گاہ
محفلوں میں تجھ سے کر سکتے نہیں جو گفتگو
تیرے آنچل میں بندھی ہے ان کی جھوٹی آبرو
پیٹ کی خاطر اگر تو بیچتی ہے جسم آج
کون ہے نفرت سے تجھ کو دیکھنے والا سماج
نظم
حوا کی بیٹی
جاں نثاراختر