EN हिंदी
حویلی موت کی دہلیز پر | شیح شیری
haweli maut ki dahliz par

نظم

حویلی موت کی دہلیز پر

عین تابش

;

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے
چاند نے بجھ کر

ستاروں نے اداسی اوڑھ کر
پھولوں نے خوشبو کا لبادہ پھینک کر

ماحول پس از مرگ کا تیار کر ڈالا ہے
بس اک آخری ہچکی کے سب ہیں منتظر

سارے اعزا و اقارب نوحہ خوانی کے لیے
تیار بیٹھے ہیں

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے
اس کے مرنے میں اگر کچھ دیر باقی ہے

تو چل کر دوسرے کچھ کام کر ڈالیں
صدی کا دوسرا عشرہ

نئے آغاز کے پل پر کھڑا ہو کر
سمندر کی بپھرتی موج کو للکارتا ہے

وقت کے غواص
سیپوں میں گہر کھنگالتے ہیں

ابن آدم کے قبیلے
روح مشرق کی پرانی گھاٹیوں سے

اک اک کر کے نکلتے ہیں
بخارا و سمرقند ازبکستان و ہرات

سب پہ چھائی ہے اندھیری سخت رات
لکھنؤ اور اکبرآباد اپنی شوکت کھو رہے ہیں

مرحبا شام غریباں
اب تو چل کر دوسرے کچھ کام کر ڈالیں

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے