ہوا سرد ہے
راستے کا دیا زرد ہے
ہر طرف دھند ہے
گرد ہے
دور سے جو چلا آ رہا ہے
وہ سایہ ہے لیکن
نہ جانے وہ عورت ہے
یا مرد ہے
میں دریچے میں
تنہا کھڑا سوچتا ہوں
رات کے پاس میرے لیے کیا ہے
ان جانی خوشیاں ہیں یا
کل کا باسی پرانا
پھپھوندی لگا درد ہے
ہوا سرد ہے

نظم
ہوا سرد ہے
محمد علوی