وہ ڈھیر کانچ کا تھا
کسی نے راکھ سمجھ کر جسے ٹٹولا تھا
عجیب رنگ تھے رقصاں نگاہ کے آگے
ہتھیلی رسنے لگی تو گمان سا گزرا
کہیں یہ خون کے چھینٹوں کی سرخیاں تو نہیں
مگر وہ درد کہاں ہے جو سکھ نگلتا ہے
جو جسم و جان میں اترا ہے اب تھکن بن کر
کہیں سے آہ و بکا کی صدائیں آتی ہیں
یہ نیم اندھیرا بڑا کربناک لگتا ہے
بجھے ہوئے وہ شرارے ہیں یا کوئی آہو
پلٹ کے دیکھ تو لے
راکھ رنج کانچ
کہیں چبھ نہ جائیں آنکھوں میں
یہ وقت جس کے پلٹنے کی آرزو لے کر
ہوا کے دوش پہ آہیں اڑائے جاتا ہے
نظم
ہوا کے دوش پہ
میمونہ عباس خان