ہوا کہتی رہی آؤ
چلو اس شاخ کو چھو لیں
ادھر اس پیڑ کے پتوں میں چھپ کر تالیاں پیٹیں
گریں اٹھیں لڑھک کر نہر میں اتریں نہائیں
مخملیں سبزے یہ ننگے پاؤں چل کر دور تک جائیں
ہوا کہتی رہی آؤ
مگر میں خشک چھاگل اپنے دانتوں میں دبائے
پیاس کی برہم سپہ سے لڑ رہا تھا میں کہاں جاتا
مجھے سورج کے رتھ سے آتشیں تیروں کا آنا
اور چھاگل سے ہمک کر آب کا گرنا
کسی بچے کا رونا اور پانی مانگنا بھولا نہیں تھا میں کہاں جاتا
میں اپنے ہاتھ کی ابھری رگوں میں قید
اپنی آنکھ کی تپتی ہوئی خاک سیہ میں جذب تھا یکسر
مجھے اک جرعۂ آب صفا درکار تھا اور میرے بچے نے
صدا دی تھی مجھے آؤ خدارا اب تو آ جاؤ
کہ میرے ہونٹ اب پھٹ بھی چکے
آنکھوں کا امرت سوکھ کر بادل بنا اڑ بھی گیا
ہوا کہتی رہی آؤ
یہ بندھن توڑ دو پیارے
مگر میں ہاتھ کی ابھری رگوں میں قید
اپنی آنکھ کی تپتی ہوئی خاک سیہ میں جذب کیا کرتا
کہاں جاتا
نظم
ہوا کہتی رہی آؤ
وزیر آغا