EN हिंदी
ہوا ہمارے کس کام کی | شیح شیری
hawa hamare kis kaam ki

نظم

ہوا ہمارے کس کام کی

جاوید شاہین

;

ہوا میری بات نہیں سمجھتی
ہوا تمہاری بات نہیں سمجھتی

ہوا ہم دونوں سے ہماری بات نہیں کرتی
ہمارے لفظ اس کی سماعت سے

پھسل جاتے ہیں
وہ بے معنی آنکھوں سے ہمیں دیکھتی رہتی ہے

میں ان کا حال کیسے جانوں
انہیں اپنا حال کیسے بتاؤں

جن کے گھر ویران ہیں
جن کی صبحیں رنگ سے خالی

اور راتیں چاندنی سے محروم ہیں
جن کی کھڑکیوں پر بھاری پردے پڑے ہیں

اور دروازوں پر تالے
لیکن ہوا یہ باتیں نہیں سمجھتی

وہ تو خالی ہاتھ آتی جاتی ہے
اور خالی ہاتھ آنے

اور خالی ہاتھ جانے والوں سے
ہمیں کیا لینا