EN हिंदी
حسیں آگ | شیح شیری
hasin aag

نظم

حسیں آگ

جاں نثاراختر

;

تیری پیشانیٔ رنگیں میں جھلکتی ہے جو آگ
تیرے رخسار کے پھولوں میں دمکتی ہے جو آگ

تیرے سینے میں جوانی کی دہکتی ہے جو آگ
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دے دے

تیری آنکھوں میں فروزاں ہیں جوانی کے شرار
لب گل رنگ پہ رقصاں ہیں جوانی کے شرار

تیری ہر سانس میں غلطاں ہیں جوانی کے شرار
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دے دے

ہر ادا میں ہے جواں آتش جذبات کی رو
یہ مچلتے ہوئے شعلے یہ تڑپتی ہوئی لو

آ مری روح پہ بھی ڈال دے اپنا پرتو
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دے دے

کتنی محروم نگاہیں ہیں تجھے کیا معلوم
کتنی ترسی ہوئی باہیں ہیں تجھے کیا معلوم

کیسی دھندلی مری راہیں ہیں تجھے کیا معلوم
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دے دے

آ کہ ظلمت میں کوئی نور کا ساماں کر لوں
اپنے تاریک شبستاں کو شبستاں کر لوں

اس اندھیرے میں کوئی شمع فروزاں کر لوں
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دے دے

بار ظلمات سے سینے کی فضا ہے بوجھل
نہ کوئی ساز تمنا نہ کوئی سوز عمل

آ کہ مشعل سے تری میں بھی جلا لوں مشعل
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دے دے