EN हिंदी
حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود | شیح شیری
hashr ki subh daraKHshan ho maqam-e-mahmud

نظم

حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود

عادل منصوری

;

رات داڑھی کے اندھیرے سے تکلف برتے
عرش کے سامنے رسوائی کی گردن نہ اٹھے

اذن سجدہ پہ کمر تختہ نہ ہو جائے کہیں
کھوکھلے لفظوں میں لوہا تو نہیں بھر سکتے

سیکڑوں سال کی تبلیغ کے چالیس ثمر
کشتی بن جائے تو تنور سے پانی ابلے

سالہا سال سے آرام نتیجہ مطلوب
تین سو ساٹھ صنم خانۂ کعبہ سے چلے

ریگ زاروں میں غبار اور کھجوری سائے
اونٹ کی آنکھ میں تشہیر ہوا درد سفر

کوئی ہندہؔ سے کہے دانت کہاں ہیں تیرے
فتح مکہ سے مگر لوگ ہدایت پائیں

خون جم جائے جو نعلین میں چلتے چلتے
عرش کی آنکھ سے رحمت کا سمندر ابلے

جبرئیل اپنی ہیئت میں ہیں نمائش منظر
پاؤں پاتال میں سر چرخ سے ٹکرائے کہیں

پر جو کھولے تو ہر اک سمت پہ پردے لٹکیں
اور جلتا ہوا سورج ابھی کھو جائے کہیں

قافلہ آیا ہے بو بکرؔ سے منسوب مگر
مال تقسیم ہوا دامن حاجت منداں

نور کندھے پہ اٹھائے شب ہجرت کے سفیر
غار میں ساتھ رہے پاس ہی پیوند ہوئے

مسجد نبوی میں انبار غنیمت روشن
لوگ روتے ہوئے نکلے ہیں پریشاں منظر

روشنی پہنچی ابو جہلؔ کی دیواروں تک
گھر کی تاریکی میں رستہ نہ بنے بینائی

پیڑ کے سائے کی پہچان یہودی راہب
رک گیا آب رواں بیوہ کے دروازے پر

دست زہرا میں نشانات عیاں چکی سے
علم کے باب علیؔ عمر میں سب سے چھوٹے

چاند کا نام ترے چاک گریبانوں میں
مبتدی ڈھونڈتے ہیں مسجد اقصیٰ میں امام

سدرۃ المنتہیٰ جبریل اجازت مانگے
کون تھا کس نے پکارا کہ چلے بھی آؤ

کون موجود تھا پہلے سے وہاں کون گیا
کون سنتا تھا وہاں کس نے پکارا کس کو

کس کی آواز کی تنویر سے عالم چمکے
سربلندی تھی مقدر میں قلم سے پہلے

بکریاں کون حلیمہؔ کی چرانے جائے
آمنہؔ بطن سے اظہار ہے آدم کا عروج

مجتمع کس نے کیا لوگوں کو پربت کے قریب
کس نے للکارا ضلالت کو مسلسل تنہا

جو کی روٹی کبھی مل جائے کبھی فاقہ کشی
بھوک سے پیٹ پہ پتھر کبھی باندھے کس نے

تین سو تیرہ کی تعداد ہے کس گنتی میں
فکر پہ دائرہ کن خندقیں کھودی جائیں

دور کی دھوپ میں ہے فیصلہ کن راہ تبوک
حنظلہؔ سامنے آ جائیں جو چھٹ جائے غبار

میں نے پہنچا دیا تم تک جو مجھے پہنچا تھا
میں نے پہنچا دیا تم تک جو مجھے پہنچا تھا

میں نے پہنچا دیا تم تک جو مجھے پہنچا تھا
کوئی پردیسی ہے خیمے پہ پریشاں صورت

اور فاروقؔ چلے بیوی کو ہمراہ لیے
فاصلے توڑ کر آواز کے سائے پھیلے

حاکم وقت کا کرتا کئی پیوند لگا
بکریاں جس سے سنبھالی نہیں جاتیں تھیں کبھی

نصف دنیا پہ خلافت کے علم لہرائے
یاد ہے صاحبو خیبر کو اکھاڑا کس نے

کس کی تلوار تھی آئینہ زمانے کے لیے
کس نے زرخیز شجاعت کے ستارے بوئے

جان دی جاوداں لمحات تلاوت مشغول
خون کے دھبے ہیں قرآن پہ تابندہ نظر

کون روتا تھا مصلے پہ ہماری خاطر
پیر ورما گئے کس کے شب سجدہ و قیام

دو مہینوں میں مکانوں سے دھواں تک نہ اٹھے
فکر امت کہ ہر اک لمحہ لہو میں کروٹ

جسم روشن تھا چٹائی کے نشاں بھی روشن
گالیاں کھاتے پھریں مکہ کے بازاروں میں

اور تنہا کبھی طائف سے نکالے جائیں
مرحبا شکر کا ٹھہراؤ بہشتی زیور

مرحبا صبر کا عرفان کہ معراج حیات
نور مجسوم ہوا گنبد خضرا مرکوز

حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود
ہاتھ روشن رہے کوثر سے قرابت منظر

خون اب سرد ہوا جاتا ہے شریانوں میں
اور بڑھتی ہوئی تعداد بھروسا توڑے

نفس دوڑاتا ہے پھر جانب شہوت گھوڑے
لذت شے میں ہیں معدوم چراغوں کی لویں

روشنی اپنے پڑوسی کو بھی پہنچا نہ سکے
روح اب شعلگی مانگے ہے ہر اک ذرے سے

کوئی الیاس کی باتوں پہ ذرا کان دھرے
کوئی یوسف سے شہادت کے معانی پوچھے

کوئی تقسیم کرے وقت کو مسجد مسجد
کوئی بیعت تو کرے دست زکریا حاضر

مرکز عشق پہ پہنچو تو ہو انعام نظر
ایک اک لمحہ کے چہرے سے عیاں اذن سفر

گمرہی قلعوں میں محفوظ رہے گی کب تک
سر اٹھائے گی ہوا بادباں کھل جائیں گے

بند دروازوں پہ دستک کی صدا گونجے گی
دھوپ دہلیز پہ پہنچائے گی مہمانوں کو

سائباں سر پہ ابابیل لیے ساتھ چلے
تلخ تہذیب کے صحرا میں اذاں لہرائے

گونج اٹھے گا حرم نعرۂ لبیک، زمیں
تیرے قدموں میں اگل دے گی خزانے اپنے

تیری تقلید میں مغرب کی بقا پوشیدہ
تیری تذلیل میں جو ہاتھ اٹھے کٹ جائے

تیری نصرت کے لیے آسماں کوشش مقصود
سلسلے تیرے بنیں زیب جہان فانی

نور مجسوم ہوا گنبد خضرا مرکوز
حشر کی صبح درخشاں ہو مقام محمود