EN हिंदी
ہرجائی | شیح شیری
harjai

نظم

ہرجائی

ضیا جالندھری

;

شام لوٹ آئی گھنی تاریکی
اب نہ آئے گی خبر راہی کی

جاگی تاروں کی ہر اک راہ گزار
دور اڑتا نظر آتا ہے غبار

آپ کی باتیں ہیں کتنی پھیکی
کس کی راہ تکتی ہو کون آنے لگا

کیا تمہیں بھی کوئی بہکانے لگا
ان کی آنکھیں ہیں کہ خوابوں کا فسوں

ان کی باتیں ہیں کہ الفت کا جنوں
آپ کو کاہے کا غم کھانے لگا

نیم شب نیند کے ماتے تارے
راہ تک تک کے کسی کی ہارے

کس قدر سچی تھیں ان کی باتیں
ان کے ساتھ آئی گئی تھیں راتیں

آپ کے ہاتھ ہیں یا انگارے
میں بھی سمجھی تھی اسے دل کے قریب

میری معصوم بہن میری رقیب
کیا کہا آپا نہیں چپ رہیے

اچھا کہہ ڈالیے کہیے کہیے
آپ کی آنکھیں ہیں کس قدر مہیب

صبح رک رک کے ستارے ڈوبے
غم نہ کھاؤ کہ جو ہارے ڈوبے

آپا جی بھر کے مجھے رونے دیں
غم کی موجوں میں فنا ہونے دیں

کون ساحل کے سہارے ڈوبے