EN हिंदी
حرف | شیح شیری
harf

نظم

حرف

طاہر عظیم

;

وہ حرف آخر کہاں گیا ہے
وہ حرف جس کی تہوں میں اپنی

محبتوں کی جو اک کہانی چھپی ہوئی تھی
وہ اک کہانی کہ جس کی رو سے ہی عمر بھر کا

قرار پاتے بہار پاتے
محبتوں میں سرور دل کا سراغ پاتے

وہ حرف آخر کہاں گیا ہے
وہ حرف جو اک شجر کی صورت

ہمارے گلشن نما مکاں میں
بہت اذیت بھری فضا میں

خزاں کے موسم کے دائروں سے
گزر کے فصل بہار لاتا

وہ حرف آخر کہاں گیا ہے
وہ حرف ہی تو ہمارے سر پر

جو ایک سایہ نما شجر تھا
کہ جس کے سائے میں رہ کے ہم سب

دکھوں کے سارے
عذاب کے دن

خوشی خوشی ہی گزار لیتے
وہ حرف آخر

بچھڑ کے ہم سے
کہاں گیا ہے

یہ سارا قصہ
بیان کر کے

جو آج ہم نے کسی سے پوچھا
وہ غور کر کے

علامتوں کو سمجھ کے سنجیدگی سے بولا
عظیمؔ وہ حرف مر چکا ہے