میرے احباب میں اک شاعر کم نام بھی ہے
ذہن ہے جس کا عجب راحت گاہ
حادثے ایک زمانے کے جہاں آ کے سکوں پاتے ہیں
جب چمک اٹھتے ہیں کچھ حادثے اظہار کی پیشانی پر
وہ سمٹتا سا چلا جاتا ہے
یعنی ہر نظم اسے اور بھی بیگانہ بنا دیتی ہے
شب نئی نظم لیے بیٹھا تھا احباب کے بیچ
اور سب ہمہ تن گوش اسے سنتے تھے
نظم کے بعد وہ عالم تھا کہ سناٹا نہ کروٹ لے پائے
(نوٹ:غیر پسندیدگی کی وجہ سے)
اس نے یوں دیکھا نہیں داد طلب نظروں سے
جیسے اس آس میں ہو
گل کے گرنے کی صدا فرش سے آئے گی ابھی
نظم
حرف غیر
راجیندر منچندا بانی