EN हिंदी
ہر رات کا خواب | شیح شیری
har raat ka KHwab

نظم

ہر رات کا خواب

صہبا اختر

;

میں ہمیشہ کی طرح تنہائی کی باہوں میں باہیں ڈال کر
رات بھی ساحل پہ تھا محو خرام

رات بھی اپنے ہی سائے کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر
میں خود اپنے آپ سے تھا ہم کلام

دم بدم دامن کشاں تھا رات بھی گہرے سمندر کا فسوں
کھنچ رہی تھیں رات کی نیلی رگیں

رات بھی جب بڑھ رہا تھا تیز وحشت خیز موجوں کا جنوں
میرا سایہ کہہ رہا تھا آ چلیں

ناگہاں ٹوٹا دھوئیں کا آبشار
دیکھتے ہی دیکھتے بجلی گری اک زور کا کوندا ہوا

میں بھنور جیسے سفینے پر سوار
بادباں جس کی ہوائیں بجلیاں مستول طوفاں ناخدا

تک رہا تھا ہر طرف دیوانہ وار
رات بھی میں خوف کی شدت میں اپنے سائے سے لپٹا ہوا

رات بھی پلکوں پہ روشن تھا لہو
رات بھی جاری و ساری تھا رگوں میں بجلیوں کا ارتعاش

رات بھی حیراں تھی چشم جستجو
رات بھی دیکھی ہے میں نے اپنے اک ہم شکل کی موجوں میں لاش

اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دور
رات بھی میں بزدلی سے بھاگ آیا اس کو تنہا چھوڑ کر

بار شب سے آج بھی شانے ہیں چور
آج بھی اٹھا ہوں جیسے روح کا تاریک گھیرا توڑ کر