EN हिंदी
ہر جانب ہیں | شیح شیری
har jaanib hain

نظم

ہر جانب ہیں

مجید امجد

;

ہر جانب ہیں دلوں ضمیروں میں کالے طوفانوں والے لفظ ہزاروں گھنی بھوؤں کے نیچے
گھات میں

اب تو میرے لبوں تک آ بھی حرف زندہ
ہر جانب گلیوں کے دلدلی تالابوں میں بے ستر ہراساں کھڑی ہیں روحیں

قدم کھبے ہیں نیلے کیچڑ میں اور ان کی ڈوبتی نظروں میں اک بار ذرا تیری تھی ان کی زندگی
ابھی ابھی اک پل کو

اور اب پھر کالے طوفاں والے لفظ ان کے لیے جانے کیا کیا سندیسے لائے ہیں
ان کو زندہ رکھیو حرف زندہ

مدتوں سے بے یاد ہے تو میرے نسیانوں میں اے حرف زندہ
اب تو میرے لبوں پر آ بھی

اب جب میرے دیکھتے دیکھتے کالے طوفاں والے لفظوں کا آبی فرش
اک

بچھ بچھ گیا ہے دور افق کے پیچھے کہیں ان پانیوں تک جن پر اک ناخدا پیغمبر کی دعاؤں
کے بجرے تیرے تھے

میرے نسیانوں میں جہندہ حرف زندہ
تیرے معنوں میں مواج ہیں وہ سب علم جو روحوں کو کھیتے ہیں اس اک گھاٹ کی سمت

جہاں امید اور خوف کے ڈانڈے مل جاتے ہیں
اب تو ساری دنیا میں سے جس اک شخص کو ڈوبنا ہے وہ میں ہوں

اب تو ساری دنیا میں وہ شخص جو تیر کے بچ نکلے گا میں ہوں