شہر کی اک اک سڑک
پھانکتی آئی ہے لاکھوں حادثوں کی سرد دھول
جانے کتنے اجنبی اک دوسرے کے دوست بننے سے کنارہ کر گئے
اور کتنے آشناؤں کے دلوں سے مٹ گئی پہچان بھی
سو نگاہیں لاکھ زخم
چار سمتی لاکھ جھوٹ
سو تماشوں کے پڑے ہیں جا بجا دھبے
جنہیں
گرد مسافت میں چھپانے کے لیے
برق پا لمحوں کو تھامے دوڑتے جاتے ہیں ہم
لمحے دو لمحے کو دم لینے کی خاطر سست ہو جائیں اگر
شہر کی اک اک سڑک
آنکھوں سے خوں رلوائےگی
اور بنا کر ہم کو بھی اک داستاں
دہرائے گی
ہانپتی تہذیب کے اک اک مسافر سے کہے گی
دوڑتے جاؤ یہی ہے زندگی
مت رکو اک دوسرے کے واسطے
بھاگتا ہے وقت
لیکن لمحہ لمحہ
دوڑنا ہے سب کو
لیکن تنہا تنہا
نظم
ہر جادۂ شہر
راجیندر منچندا بانی