ہر آئینہ اک عکس نو ڈھونڈتا ہے
سمندر کی لہریں ہوں یا دشت کی ان گنت پتیاں
سب یہی سوچتی ہیں
کہ کوئی نئی روح ان میں سما جائے
اڑتے ہوئے ابر پارے مسلسل
طلوع سحر سے نمود شفق تک
کوئی سمت نو ڈھونڈتے ہیں
افق تا افق چاندنی
رات کے دامن بے کراں میں
نئی ساعتوں کے نشاں ڈھونڈھتی ہے
تلاش مسلسل کی بہتی ہوئی رو میں اک کاہ بھی ہے
جو صدیوں سے اس آس میں بہہ رہا ہے
کہ شاید کوئی قوت کہربائی
کسی سمت سے ناگہاں آ کے
آغوش میں جذب کر لے
مگر آرزو کی رسائی سے باہر
ابھی ان گنت مرحلے راہ میں ہیں
ابھی جستجو اولیں منزلوں کی حدیں
پار کرتی چلی جا رہی ہے
ابھی سوچ کی ابتدائےسفر ہے!
نظم
ہر آئینہ اک عکس نو ڈھونڈتا ہے
عزیز تمنائی